Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر19

شازل ہانیہ کے آفس آیا تو ایک عجیب سہ احساس وہ اپنے اندر محسوس کر رہا تھا۔۔۔ شازل کو سامنے سے آتا دیکھ کر سلیم فوراً کھڑا ہوا۔۔۔ سر آپ یہاں خریت۔۔۔؟؟سلیم نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔ اے سی صاحبہ اپنے روم میں ہیں۔۔؟؟شازل نے سنجیدگی سے بولا۔۔ جی سر۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے ابھی اور اسی وقت ان سے ملنا ہے۔۔۔ سر میں میم سے پوچھ لوں۔۔۔اگر وہ اجازت دیں تو آپ مل سکتے ہیں۔۔ ٹھیک ہے سلیم صاحب پوچھیں۔۔۔کہتے ہوئے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد سلیم خود ہانیہ کے پاس گیا جو لپ ٹاپ پر تیزی سے انگلیاں چلا رہی تھی۔۔ میم وہ شیرازی گروپ اوف کمپنیز کے سی او شازل شیرازی آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔سلیم نے ادب سے آگاہ کیا۔۔۔۔ اور ہانیہ کی چلتی انگلیاں وہی تھم گئیں۔۔۔ہانیہ کو ایكدم روم میں گھٹن محسوس ہونے لگی۔۔۔ میم۔۔۔آپ نے بتایا نہیں میں بھیج دوں انھیں وہ باہر ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔سلیم دوبارہ مخاطب کیا۔۔۔ اسکی آواز پروہ چونکی۔۔۔۔پھر خود کو ریلکس کرتی اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ آپ ان سے کہیں آدھا گھنٹہ ویٹ کریں میم میٹنگ میں ہیں۔۔اپنی بات مکمل کرتی واپسی لپ ٹاپ پر نظریں جمالیں۔۔۔ میم لیکن آپ۔۔۔ہانیہ نے فوراً لپ ٹاپ سے نظر ہٹائی اور اسکی طرف دیکھا۔۔ سلیم صاحب۔۔۔میں نے کہا نہ کے ان سے کہیں میں میٹنگ میں ہوں۔۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔ہانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ جی میم۔۔۔ سلیم باہر آیا تو شازل اسے دیکھ کر فوراً کھڑا ہوا۔۔۔ جی سلیم صاحب میں جاؤں۔۔۔؟؟شازل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ نہیں سر میم ابھی میٹنگ میں ہیں۔۔۔آپ ابھی ویٹ کریں۔۔۔کہتے ہوۓواپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔ آپ نے انکو بتانا تھا کہ شازل شیرازی آئے ہیں مجھے یقین ہے وہ میٹنگ چھوڑ دئیے گی۔۔۔شازل پر امید تھا۔۔۔ سر میں نے کہا تھا۔۔۔پر انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔۔۔اسلیے آپ کو ویٹ کرنا پڑے گا۔۔۔ سلیم کے جواب پر شازل کو دکھ ہوا تھا۔۔۔پھر خیال آیا کہ شاید وہ ناراض ہو اسلیے ایسا کر رہی ہے۔۔۔ سر آپ کے لیے چاۓ منگواؤں۔۔۔؟؟سلیم نے اسے کھوۓ ہوۓ دیکھ کر پوچھا۔۔ سلیم کی آواز پر وہ چونکا۔۔۔ نہیں سلیم صاحب مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔شازل کو بس انتظار تھا کہ کب ہانیہ اسے بولائیں۔۔۔


ہانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہاں سے غائب ہوجاۓ۔۔۔وہ تو کبھی شازل کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔۔پھر آج وہ خود آگیا۔۔۔یا اللہ‎ پلیز مجھے ہمت دے کہ میں اس کا سامنا کر سکوں۔۔۔ میم آپ نے بلایا تھا۔۔سلیم نے اندر آتے ہی ادب سے کہا۔۔ جی سلیم بھیج دیں انھیں۔۔۔ہانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ جی میم۔۔۔کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔۔۔ ہانیہ نے بظاہر خود کو فائلز میں مصروف کر لیا۔۔۔ شازل اندر آتے ہی ایک پل کو روکا۔۔۔اسے ہانیہ سے سامنے کرنے میں بھی ڈر لگ رہا تھا۔۔۔کہ اس کا ریکٹ کیا ہوگا۔۔پر شاید اسے اب ہانیہ کو سب بتانا تھا چاہے جو ہوجاۓ۔۔۔خود کو ہمت دلاتے۔۔۔ہانیہ کے روم میں آیا۔۔ ہانیہ جانتی تھی وہ روم میں آ چکا ہے۔۔۔لیکن اس نے نظر اٹھا کر شازل کو نہیں دیکھا۔۔۔اسے ڈر تھا کہ کہی وہ شازل کو دیکھ کر اپنی ہمت نہ کھو دیے۔۔۔ ہانی۔۔۔بولتے ہوۓ اسکے قریب آیا۔۔ اس سے پہلے وہ اسکے پاس آتا ہانیہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے وہی روک دیا۔۔۔ مسٹر شازل شیرازی آپ کو جو بات کہنی ہے۔۔۔یہاں بیٹھ کر کریں۔۔۔میں کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ کوئی میرے قریب آئے۔۔۔ہانیہ سپاٹ لہجے میں بولی۔۔ اور شازل تو اسکے انداز پر ششدرره گیا۔۔۔اسے یقین نہیں تھا ہانیہ اس سے اس انداز میں بات کریں گی۔۔۔ شازل خاموشی سے اسکے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔ ہانی دیکھو۔۔۔اس پہلے وہ مزید کچھ کہتا ہانیہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔ مسٹر شازل آپکا میرا ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے کہ آپ مجھے ہانی کہیں۔۔میرا نام اے سی ہانیہ شنواری ہے۔۔اور مجھے میرے اس نام سے ہی پکارے تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔ہانیہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔ اور ہانیہ کے الفاظ سے تو شازل کی ہمت جواب دینے لگی۔۔۔ ہانیہ تم میری ایک بار آرام سے بات سن لو۔۔۔شازل نے التجہ کی۔۔۔ مسٹر شازل اگر آپ نے کوئی پرسنل بات کرنی ہے تو میرے پاس آپ کی فضول باتیں سننے کا ٹائم نہیں ہے۔۔۔ہاں اگر آپ کو اپنی کمپنی کی کوئی بات کرنی ہے تو میں سن رہی ہوں آپ بولیں۔۔۔بولتے ہوۓ ہانیہ نے کرسی سے ٹیک لگائی۔۔۔ ہانیہ تم ایسا کیوں کر رہی ہو۔۔۔میری بات تو سن لو۔۔۔میں جانتا ہو تم مجھ سے ناراض ہو۔۔پر ایک بار تسلی سے میری سمجھ تو لو۔۔۔ بس مسٹر شازل۔۔۔پہلی بات میں ایسا کیوں کر رہی ہوں یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور دوسری بات میرا آپ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ میں آپ جیسے انسان سے ناراض ہوں۔۔۔میرا خیال ہے اب آپ میرا ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ ہانیہ تم ایسا۔۔۔اسلیے پہلے وہ اپنی بات کرتا ہانیہ اپنی چیزیں اٹھا کر کمرے سے جا چکی تھی۔۔۔ اور شازل بے بسی سے اسکی پشت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔


ہانیہ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی تو اسکی نظر نانو اور انکے ساتھ بیٹھے انسان پر پڑی جس کی پشت ہانیہ کی طرف تھی۔ہانیہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی ۔۔۔نانو کو اسکے ساتھ ہنستا دیکھ کر ہانیہ کی کچھ دیر پہلی والی پریشانی حیرانگی میں بدلی تھی۔۔۔ ہانیہ انھیں نظر انداز کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔وہ ابھی کسی سے ملنے نہیں چاہتی تھی۔۔۔شازل سے ملنے کے بعد اسکا دماغ ماؤف ہوکر ره گیا تھا۔۔۔ ہانیہ بیٹا یہاں آؤ۔۔۔دیکھو کون آیا ہے۔۔۔ وہ جو اپنے کمرے میں جا رہی تھی نانو کی آواز پر مڑی۔۔۔اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی انکے قریب آئی۔۔۔ ہانیہ نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔جو بارے مزے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ پہچانا۔۔۔؟؟ہانیہ کے سامنے کھڑے ہوتے سوالیہ نظرو سے ہانیہ کو دیکھا۔۔ رومان۔۔۔؟؟ہانیہ سوچتے ہوۓ بولی۔۔۔ جی بلکل رومان۔۔۔ہانیہ شنواری۔۔۔رومان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ ارے بھئی آپی بولو بڑی ہے تم سے۔۔۔ ارے دادو۔۔۔اب اتنی بھی بڑی نہیں ہیں۔۔۔کہ مجھے آپی کہنا پڑے یہی کوئی ایک سال بڑی ہونگی۔۔۔اور ویسے بھی مجھے یہ آپی وغیرہ کہنے کی عادت نہیں ہے۔۔۔رومان نے شرارت سے کہا۔۔۔ اچھا بھئی جیسا تم ٹھیک سمجھو کہو۔۔۔نانو نے ہتھیار ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔ جس پر وہ ہنس دیا۔۔۔ ہانیہ بس خاموش کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ ارے آپ وہاں کیوں کھڑی ہیں۔۔۔آئے ہمارے ساتھ بیٹھے۔۔ میں کچھ تھکی ہوئی ہوں۔۔۔شام کی چاۓ پر ملاقات ہوتی ہے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ اسکے جاتے ہی رومان دادو کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔دادو انہیں کیا ہوا۔۔۔؟؟کیا انہیں میرے آنے کی خوشی نہیں ہوئی ۔۔؟؟ اوہو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔تھک جاتی ہے نہ اسلیے۔۔۔اور تم اسکے اکلوتے ماموں کے بیٹے ہو وہ بھلا کیوں خوش نہیں ہوگی۔۔۔نانو نے اسے یقین دہانی کرائی۔۔۔حالانکہ ہانیہ کا یو جانا نانو کو بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ چلے کوئی بات نہیں ویسے بھی آپ کو پتا ہے وہ کس فیز سے گزر رہی ہیں۔۔۔۔اب میں آگیا ہوں نا سب ٹھیک کر دونگا۔۔۔۔اور یہ شازل کو تو فون کروں۔۔۔میں نے اسے کہا بھی تھا کہ مجھے ایئرپورٹ سے لینے آنا پر مجال ہے میری کوئی پرواہ ہو۔۔۔ بزی ہوگا اسلیے بھول گیا۔۔۔ورنہ وہ بھولتا نہیں ہے۔۔۔نانو اسکے دفاع میں بولی۔۔۔ ہممم۔۔۔ اچھا چلو میں تمہارے لیے کھانا لگواتی ہوں۔۔۔تم اسے کال کرو۔۔۔ جی ٹھیک ہے۔۔رومان نے ادب سے جواب دیا۔۔۔

   0
0 Comments